”سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی روک تھام وقت کی اہم ضرورت ہے”
رکن صوبائی اسمبلی خیبر پختونخوا اور عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی سیکرٹری اطلاعات ثمر ہارون بلور نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا کے پھلنے پھولنے سے ہمارے ہاں غلط معلومات اور نفرت انگیز مواد کا پھیلاؤ بہت بڑھ چکا ہے جس کی روک تھام وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔
پشاور میں ٹی این این اور جرمن ادانے فریڈرک ناومین فاؤنڈیشن کے مشترکہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ثمر ہارون بلور نے کہا کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مفید معلومات کی بہ نسبت نفرت انگیز مواد دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے جو کہ انتہائی ٖغور طلب مسئلہ ہے۔
معلومات کی تصدیق اور حقائق کی جانچ پڑتال کے موضوع پر ایک روزہ ورکشاپ میں صوبے بھر سے سماجی رابطوں کے ویب سائٹس پر اثر و رسوخ رکھنے والے چوبیس افراد (سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس) نے شرکت کی جن میں آٹھ خواتین اور ایک خواجہ سرا، صوبیا خان، بھی شامل تھیں۔ اس موقع پر ثمر ہارون بلور اور پی ٹی آئی کی ممبر صوبائی اسمبلی عائشہ بانو نے بطور مہمانان خصوصی شرکت کی۔
ورکشاپ میں ایف این ایف کی کنٹری ڈائریکٹر بریگٹ لم اور ٹی این این کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سید نذیر آفریدی نے بھی شرکت کی جبکہ سہولت کاری کے فرائض ٹی این این کے ڈائریکٹر طیب آفریدی اور سینئر پروڈیوسر افتخار خان نے ادا کئے۔
اس موقع پر بریگٹ لم نے کہا کہ کورونا وائرس وباء کے دوران فیک نیوز اور افواہوں کا سلسلہ مزید تیز ہو گیا ہے اور اس قسم کی مجالس اس کی روک تھام میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
سید نذیر آفریدی نے اپنی گفتگو میں بریگٹ لم کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ فیک نیوز اور غلط معلومات آج کل نہ صرف مین سٹریم میڈیا بلکہ سوشل میڈیا کے لئے بھی ایک بہت بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فیک نیوز کی روک تھام اور لوگوں تک حقائق کی ترسیل ہمارا مشترکہ مشن ہے جس کے لئے ہم ساتھ ساتھ آگے جائیں گے۔
انہوں نے تربیت لینے والے سوشل میڈیا سٹارز پر زور دیا کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اپنے اثر و رسوخ کو مثبت طریقے سے استعمال کریں اور غلط معلومات کی راہ روکیں۔
ایک روزہ ورکشاپ میں شریک معروف یوٹیوبر افسر افغان نے ٹی این این اور ایف این ایف کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے زیادہ تر سوشل میڈیا سٹارز معلومات کو تصدیق کے بغیر ہی آگے پہنچاتے ہیں جس سے نہ صرف ان کی اپنی کریڈبیلیٹی متاثر ہوتی ہے بلکہ غلط معلومات سے ان کے فالووز کو بسااوقات نقصان بھی پہنچتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ورکشاپ میں انہیں معلومات اور تصاویر کی تصدیق، غلط خبروں کی اقسام اور علامات کے حوالے سے بتایا گیا جس سے یقینی طور پر یہ سٹار مستقبل میں استفادہ کریں گے۔
ورکشاپ کی دوسری مہمان خصوصی عائشہ بانو نے کہا کہ ہماری حکومت صحافیوں کے تحفظ کے ایکٹ پر کام کر رہی ہے لیکن کورونا کی وجہ سے یہ عمل تھوڑا تعطل کا شکار ہوا ہے، "میری خواہش ہے کہ قانون سازی کے حوالے سے صحافیوں کے ساتھ مشاورتی مجالس کی جا سکیں تاکہ مفید قانون سازی ممکن ہو۔”
انہوں نے ورکشاپ کے شرکاء پر زور دیا کہ بطور سوشل میڈیا انفلوینسرز ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے فالوورز کو حقائق سے اگاہ کریں نا کہ کسی پروپیگنڈا کا شکار ہوں یا غلط معلومات فراہم کریں۔
عائشہ بانو نے کہا میڈیا اور سوشل میڈیا کی مثال واچ ڈاگ کی سی ہونی چاہئے، اگر حکومت بری کارکرگی کا مظاہرہ کر رہی ہے تو اس پر انگلی ضرور اٹھائیں لیکن اگر کچھ اچھا کر رہی ہے تو اسے بھی لوگوں تک پہنچائیں۔
خاتون ایم پی اے نے کہا کہ آپ لوگوں نے یہاں سے اخلاقیات اور دیگر اصولوں کے حوالے سے جو کچھ بھی سیکھا ہے امید ہے ان پر نہ صرف خود عمل کریں گے بلکہ دوسروں کو بھی بتائیں گے۔
انہوں نے ٹی این این اور ایف این ایف کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں بھی اس قسم کے ورکشاپس منعقد کرائیں تاکہ سوشل میڈیا سٹارز کے مواد کا معیار بہتر ہو سکے۔