‘تمہیں جائیداد میں حصہ نہیں دے سکتے کیونکہ جہیز دے چکے ہیں’
نشاء عارف
‘ میرے بھائیوں نے مجھے یہ کہہ کر جائیداد میں حصہ دینے سے انکار کردیا کہ تمہاری شادی میں کافی خرچہ کرچکے ہیں یہ تو جان چھڑانے والی بات ہوئی’
صائمہ جس کا تعلق پشاور شہر کے گنجان آباد علاقے ہشتنگری سے ہے کا کہنا ہے کہ وہ تین بہنیں اور چار بھائی ہیں۔ان سب کی شادی والدین کی زندگی میں ہوئی، والد محکمہ تعلیم میں چوکیدار تھے، والدہ کی وفات کے بعد گھر میں چاروں بھائیوں کا گزارہ مشکل سے ہونے لگا چاروں بھائیوں کی بیویوں میں بچوں کی وجہ سے لڑائیاں شروع ہو گئی۔اس لئے یہ فیصلہ ہوا کہ گھر بیچ کر اپنا اپنا حصہ لیا جائے اور گھر کا بٹوارا ایسا کیا کہ چاروں بھائیوں پہ تقسیم کیا بہنوں کو حصہ دینے سے انکار کردیا۔
جب صائمہ اور ان کی بہنوں کو پتہ چلا تو خاندان کے بڑوں کو بٹھایا تاکہ وہ مناسب فیصلہ کر سکے لیکن بھائیوں نے یہ کہہ کر بات رفعہ دفعہ کی کہ ہم نے ان کی شادیوں پر خرچہ کیا تھا اس لئے ان کا کوئی حق نہیں بنتا اس طرح بہنوں کو خالی ہاتھ اپنے اپنے گھر لوٹا دیا۔
اب چاروں بھائیوں نے اپنا اپنا حصہ لیا اور اپنے الگ الگ گھر بنانے میں لگ گئے لیکن جب بات ان کی اپنی بیویوں کی آتی ہیں تو بھائی ان کو کہتے تھے کہ جاو اور اپنے والدین سے اپنا حصہ لاؤ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
بہن ہو یا بیٹی اس کی اچھی طرح پرورش کرنا ان کو بہتر تعلیم دینا رہنے سہنے کی بہترین سہولیات اور دین ودنیاوی تعلیم مہیا کرنا والدین اور بھائیوں کا فرض ہوتا ہے تاکہ وہ شادی کے بعد اپنے ساس، سسراور بچوں وغیرہ کا خیال اچھے طریقے سے رکھ سکیں حق اور نا حق کی پہچان کر سکیں اور یہ سب کرنے کے بعد بہن یا بیٹیوں کو واثت میں جائیداد سے بے دخل کر دینا ایک نا معقول فعل ہے۔
قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ بہن بیٹیوں کا وارثت میں حق ہوتا ہے جو ان کو ہر صورت میں دینا ہے۔ قرآن کی آیت کا ترجمہ ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے. عورتوں کو ان کا حق ادا نہ کرنا اور ان کے مال پر عیش وعشرت کرنا یہ حرام ہے۔ ہمارا دین اسلام ایک مکمل اور آسان دین ہے اس میں تمام مسائل کا حل موجود ہے ہمیں چاہیے کہ وراثت کی تقسیم کے وقت دین اسلام کے احکامات کی پیروی کریں۔ اگر ہم دنیا اور آخرت کی زندگی میں کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت میں ان کا حق ضرور دہنا چاہیے تاکہ رب ہم سے راضی ہو جائے۔
پشاور ہائی کورٹ کے ایڈوکیٹ طارق افغان کا کہنا ہے کہ اگر خواتین کی وراثت کے بارے میں بات کی جائے تو اسلام نے بھی خواتین کی وراثت کے بارے میں وکالت کی ہیں ہمارے ملک کی مروجہ قانون میں بھی خواتین کے حقوق اور وراثت کے بارے میں گارنٹی موجود ہیں۔ خواتین کا وراثت میں اپنا اپنا حصہ ہوتا ہے، چاہے وہ بہن کا حصہ ہو، بیٹی کا حصہ ہو، بیوی کا ہو یا ماں کا حصہ. ان سب کے لیے قانون میں الگ الگ حصے ہیں اگر کوئی خاتون کو وراثت میں حصہ نہیں دیتا تو پینل کورٹ میں ان کے لیے دفعہ 498A ہے۔ اس کے مطابق 10 سال تک قید کی سزا موجود ہے اگر کوئی اپنے جائیداد میں خواتین کو حصہ نہیں دیتا تو ان کو اسی دفعہ 498Aکے تحت 10 سال تک سزا ہو سکتی ہے اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔
2019 میں صوبائی گورنمنٹ نے ایک اور ایکٹ پاس کیا ہے جس کے مطابق خواتین وراثت میں اپنے حصے کے لیے مقدمہ دائر کر سکتی ہیں اور اپنا حق آسانی سے لے سکتی ہیں.
دوسری بات یہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی بہن بیٹی کو زیادہ جہیز دیا ہے اور اب وراثت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے تو جہیزایک جرم ہے اور اسکی سزا ہے’ میری نظر میں جہیز ایک جرم ہے اور وراثت میں حصہ نہ دینا بھی الگ جرم ہے یعنی یہ دونوں کام کرنے والے لوگ مجرم ہیں اور اگر انکار بھی کرے تب بھی یہ جرم ہے اور قانون کی گرفت میں میں آسکتے ہیں’ طارق افغان نے کہا۔
میں کہتی ہوں کہ بہن بیٹی کو بھلے جہیز نہ دو لیکن وراثت میں حصہ دینا ان کا حق ہے اس سے انکو محروم نہ کیا جائے۔