مزدور محنت کرکے پیسے کماتا ہے غلام نہیں ہوتا کسی کا
سدرہ ایان
یوں تو ہم جب بھی مزدور کا نام لیتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ایک نوجوان مزدور کا عکس ابھر آتا ہے لیکن اگر ہم غور کریں تو یہاں ہمیں بہت سے مزدور ملیں گے جس میں بوڑھے ، بچے اور خواتین بھی شامل ہیں جو کسی نہ کسی فیلڈ محنت مزدروی کررہے ہیں۔
یوں تو ہم دوسروں کو درس دیے پھرتے ہیں کہ بزرگوں سے کام نہ کروایا جائے, بچوں سے کام کروانا قانوناً جرم ہے اور خواتین گھر بیٹھ کر گھر کو سنبھالے لیکن غربت ایک ایسی آفت ہے جو اگر کسی گھر کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیں تو وہاں بوڑھے بچے اور خاتوں کا فرق مٹ جاتا ہے تب گھر کے ہر فرد کو کام کرنا ہوتا ہے اپنے گھر والوں کو سہارا دینا ہوتا ہے۔یوں تو بچوں سے کام کروانا قانوناً جائز نہیں لیکن یہی بچے سکول کی بجائے ہوٹلوں، دکانوں اور ریڑھیوں پر بیٹھے روزی کماتے ہیں کیونکہ انکے گھر میں غربت ہوتی ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی سکول نہیں جاسکتے۔
یکم مئی مزدوروں کا دن ہے ہے لیکن اس دن ہم پاکستانی آبادی کا 52 فیصد خواتین کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کر سکتے کیونکہ ہماری خواتین بھی کسی کسی فیلڈ میں مزدوری کررہی ہیں زرعی کارکن سے لے کر ٹیکسٹائل، سلائی کڑھائی، دستکاری، ہینڈی کرافٹس اور تعمیراتی پروجیکٹ میں کئی خواتین عرصہ دراز سے محنت مزدوری کررہی ہیں اور اپنے خاندان والوں کا سہارا بننے کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کررہی ہیں۔
پاکستان میں غیر سرکاری تنظیموں کے اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں خام مال سے مصنوعات تیار کرنے والے ہوم بیسڈ ورکرز کی تعداد اڑھائی کروڑ سے زیادہ ہیں جس میں ایک کروڑ چالیس لاکھ سے زائد خواتین ہیں ان مزدوروں کو مراعات دینا تو دور کی بات انھیں تو وہ حقوق بھی نہیں مل رہے جن کی گارنٹی قومی آئین اور مختلف عالمی و علاقائی چارٹرز دیتے ہیں۔ خواتین مزدوروں کے ساتھ بہت بد سلوکی کی جاتی ہے ۔انکا جنسی استحصال، انہیں ہراساں کرنا،انھیں تشدد کا نشانہ بنانا ، انتہائی معمولی اجرت پر 24 گھنٹے کے لیے معصوم بچیوں اور خواتین سے مشقت کا کام لینا ایک عام بات ہے۔
غریب والدین کی معاشی مجبوریوں کے پیش نظر ان کے معصوم بچے کام کے لیے دوسروں کے گھر جاتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے۔ بات بات پر انھیں مارا پیٹا جاتا ہے ، انھیں گالیاں دی جاتی ہے ،سب کے سامنے انکی بے عزتی کی جاتی ہے اور باہر کے سارے کام ، دکان کی صفائی ، روٹی پانی لانا یہ سب بھی اسکی زمہ داری بنی ہوئی ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں آج بھی خواتین مزدور کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا جاتا ہے ہمارے اردگرد ہمیں ایسے بہت سے واقعے دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں گھروں میں کام کرنے والی خواتین اور بچیوں پر تشدد کیا جاتا ہے ان کو مارا پیٹا جاتا ہے اور ان کو جلا بھی دیا جاتا ہے۔
گھروں میں کام کرنے والی خواتین پر رعب جمانا ، انکو حقارت سے دیکھنا ، ان سے برا رویہ اختیار کرنا انکو باسی روٹی اور پٹھے پرانے کپڑے دیکر ان پر احسان کرنا آج بھی عام ہے۔ ہم کیوں یہ نہیں سوچتے کہ ہم اسے گھر کے کام کرنے کے پیسے دیتے ہیں نہ کہ ان سے برے برتاؤ کے بھی ہم پیسے دیتے ہیں۔
ہمارے گھروں میں اگر مزدور کام کرتے ہیں تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ انکو وہ کھانا کھلائے جو ہم خود کھاتے ہیں انھیں آرام کرنے کا موقع دیا جائے اور کھلے دل سے انکا معاوضہ انکو دے دیں اور انکے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کریں کیونکہ وہ انسان ہیں ہمارے غلام نہیں اور یہی انسانیت کا بھی تقاضا ہے۔