توہین مذہب قتل کیس: خالد کو پستول فراہم کرنے والا وکیل جیل منتقل
پشاور کی عدالت میں توہین مذہب کے ملزم کو قتل کرنے والے نوجوان کو پستول دینے والے وکیل کو جیل بھیج دیا گیا۔
پولیس نے پشاور کی مقامی عدالت میں ملزم فیصل عرف خالد کو پستول دینے والے وکیل کو پیش کیا، جونئیر وکیل طفیل ضیاء کو مجسٹریٹ جج ریاض کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
عدالت نے ملزم طفیل ضیاء کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ وکیل طفیل کو پستول دینے کے الزام میں تین دن قبل گرفتار کیا گیا تھا۔
طاہر نسیم کو قتل کرنے والا ملزم فیصل عرف خالد بھی جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 17 سالہ قاتل نے دوران تفتیش قتل کا اعتراف کیا اور دعویٰ کیا کہ انہیں پستول جوڈیشل کمپلکس کے اندر ایک وکیل نے فراہم کردی تھی۔
کمرہ عدالت میں مشتبہ توہین مذہب و رسالت کے ملزم کے قتل کے الزام کا سامنا کرنے والے نوجوان لڑکے نے پیر کو انسداد دہشت گردی عدالت سے اپنی ضمانت کی درخواست واپس لے لی تھی۔
ملزم کے وکلا کا ایک پینل عدالت میں پیش ہوا اور آگاہ کیا تھا کہ ان کے موکل ضمانت کی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے اور وہ صرف کیس کا ٹرائل جلد مکمل ہونے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
عدالتوں میں جانے سے قبل وکلا کی عام طور پر تلاشی نہیں لی جاتی ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ گرفتار وکیل نے خفیہ طور پر قاتل نوجوان کو پستول دی تھی۔
واضح رہے کہ 29 جولائی کو57 سالہ طاہر احمد نسیم ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران دلائل کے بعد بیٹھے تھے اور جیل منتقلی کا انتظار کر رہے تھے جب انہیں قریب سے متعدد گولیاں ماری گئی تھیں۔
حکام و عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ جب جج کے سامنے طاہر نسیم کے خلاف چارجز پڑھ کر سنائے جارہے تھے اس وقت وہاں موجود ایک نوجوان نے پستول نکالی اور طاہر کے سر پر گولی ماری۔ توہین مذہب کا ملزم کے ساتھ امریکی شہریت بھی تھی اور ان کے قتل کے بعد امریکا نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ قتل کے معاملے پر کارروائی کرے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ‘ہم امریکی شہری طاہر نسیم کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہیں، جنہیں پاکستان کی کمرہ عدالت میں قتل کردیا گیا۔’
ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ‘ہم پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ وہ فوری کارروائی کرے اور دوبارہ ایسے شرمناک سانحات کی روک تھام کے لیے اصلاحات کرے۔’
طاہر نسیم کے خلاف پولیس میں شکایت نوشہرہ کے رہائشی و اسلام آباد میں مدرسے کے طالب علم ملک اویس نے درج کروائی تھی۔ طاہر نسیم پر 4 فروری 2019 کو دفعات 153۔اے، 295۔اے اور 298 کے تحت فرد جرم عائد کی گئی تھی تاہم ملزم نے ان چارجز کو مسترد اور اپنے دفاع کا فیصلہ کیا تھا۔