‘عورت مارچ خواتین کا ہے اس سے مردوں کا کیا لینا دینا؟’
خالدہ نیاز
خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے عورت مارچ کے انعقاد سے پہلے پچھلے سال کی طرح اس سال بھی کچھ نعرے زبان زد عام ہو چکے ہیں جن میں حسب سابق ‘میرا جسم میری مرضی’ ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے۔ اگر ایک طرف مردوں کی رائے اس حوالے سے بٹی نظر آتی ہے تو دوسری طرف کچھ خواتین بھی کھلے عام اس کی مخالفت کر رہی ہیں اور اس کو بے حیائی سے تشبیح دے رہی ہیں۔
‘ میرا جسم میری مرضی کی تشریح کو بعض لوگوں نے غلط لیا ہے، یہ نعرہ ان خواتین اور بچیوں کا ہے جن کا ریپ ہوا ہے اور یہ نعرہ ان خواتین کی بھی آواز ہے جن کی مرضی کے خلاف ان کی شادی کرائی گئی ہے۔’ یہ خیالات انسانی حقوق کی وزارت میں کام کرنے والی پشاور کی شاہدہ شاہ کے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ میرا جسم میری مرضی نعرے کا اصل مقصد یہ ہے کہ خواتین کو اپنے حقوق دیئے جائیں، ان کا ریپ بند کیا جائے، ان کی مرضی کے بغیر ان کی شادیوں کا سلسلہ روکا جائے اور پیدائش سے قبل ان کو موت کے منہ میں نہ دھکیلا جائے۔
عورت مارچ کی تشریح شاہدہ شاہ نے اس طرح کی کہ اسلام اور آئین نے خواتین کو جو حقوق دیئے ہیں ان سے جب خواتین کو محروم کیا جاتا ہے تو اس صورت میں وہ اس کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں اس کا مطالبہ کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں نے خواتین کے حقوق پر قبضہ کیا ہے اور اس کو کلچر اور مذہب کا نام دیا ہے تو اس کے خلاف خواتین نے عورت مارچ شروع کیا ہے جن کا نعرہ ہے کہ وہ اپنے حقوق سے پیچھے نہیں ہٹیں گی۔
سوشل میڈیا پر عورت مارچ کے نعروں پر بحث کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس پر بات ہونی چاہئے لیکن عورت مارچ خواتین کا ہے اس سے مردوں کا کیا لینا دینا۔
کئی دنوں سے عورت مارچ کے حق میں سوشل میڈیا پر مہم چلانے والی پشاور کی خاتون صحافی زینت خان کا کہنا ہے کہ آج کل سوشل میڈیا پر عورت مارچ کا ایک نعرہ گردش کر رہا ہے اور بہت سے لوگ اس کو صحیح نہیں سمجھتے لیکن اس نعرے کو تخلیق کرنے والی کے مطابق اس سے ان کا مراد یہی ہے کہ خواتین کے جسم پر ان کا ہی حق ہونا چاہئے کسی دوسرے انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ نامناسب انداز میں ان کو چھوئے یا عوامی مقامات پر ان کو ہراساں کرے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے زینت خان نے کہا ‘ہمارے معاشرے میں عموماً خواتین کو دبایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہے تو یہ نعرہ اس سے متعلق بھی ہے کہ خواتین کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو جائے۔’
‘عورت مارچ میں حصہ لینا اور اس کا انعقاد کرنا خواتین کا بنیادی حق ہے کیونکہ اس میں خواتین اپنے حقوق کے حوالے سے بات کرتی ہیں نہ کہ املاک وغیرہ کو نقصان پہنچاتی ہیں اور ویسے بھی اظہار رائے اور پرامن احتجاج سب کا بنیادی حق ہے لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں بعض لوگ اس مارچ کو مذہب اور بے حیائی سے جوڑتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے خواتین کو وہ حقوق دیئے ہیں جو اسلام نے ان کو دیئے ہیں، شادی کے وقت تو ان کی مرضی نہیں پوچھی جاتی اور جائیداد میں ان کو حصہ نہیں ملتا۔’ زینت خان نے ایک ساتھ کئی سوالات اور اعتراضات بھی اٹھائے۔
دوسری جانب سرکاری سکول کی استانی سلمیٰ جہانگیر کا کہنا ہے کہ وہ میری جسم میری مرضی نعرے کے خلاف ہیں کیونکہ یہ منفی تاثر پھیلا رہا ہے۔ ‘عورت مارچ میں اگر خواتین میری جسم میری مرضی کے برعکس میری ذات میری مرضی کا نعرہ لگائیں تو اس سے مثبت پیغام جائے گا۔’
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ ہمارا معاشرہ مردوں کا ہے اور اسلام نے خواتین کو جتنے حقوق دیئے ہیں کسی اور مذہب نے نہیں دیئے لیکن ایک حد میں جن کو پار نہیں کرنا چاہئے اور اگر انہیں حدود میں رہ کر خواتین اپنے حقوق کے لیے عورت مارچ کے ذریعے آواز اٹھاتی ہیں تو وہ اس کے حق میں ہیں لیکن اگر وہ ان حدود کو پارکرتی ہیں تو وہ ایک عورت ہوتے ہوئے بھی اس مارچ کی مخالفت کرتی ہیں۔
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والی قانون کی طالبہ جمائمہ آفریدی کہتی ہیں کہ عورت مارچ ان خواتین کو خراج تحسین پیش کرنے کا نام ہے جنہوں نے مشکل حالات کے باوجود اپنے کام کو جاری رکھا ہوا ہے اور یہ کہ عورت مارچ خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دلانے کے لیے ان کی آواز ہے۔
جمائمہ آفریدی کے مطابق’ ہمارے ملک کی آدھی آبادی خواتین کی ہے لیکن کام کرنے والی صرف دو تین فیصد ہیں، اگر خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ ملکر کام کریں گی تو نہ صرف وہ اپنے خاندان کو سپورٹ کرسکتی ہیں اور مردوں کا بوجھ کم کرسکتی ہیں بلکہ اپنے ملک کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا سکتی ہیں۔’
ضلع مردان کی شاندانہ عزیز بھی میرا جسم میری مرضی جیسے نعروں کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام نے خواتین کو جو حدود بتائے ہیں ان کی پابندی ضروری ہے اور اس کے علاوہ کلچر بھی جن چیزوں کی اجازت نہیں دیتا اس سے خواتین کو دور رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جسم اللہ کا دیا ہوا ہے اور اسی کے تابع ہونا چاہئے کیونکہ وہ ہمارا خالق ہے۔