اس دیس میں فرنٹ کی کرسی پر بیٹھنے کا حق کس کو ہے؟
عبدالرؤف یوسفزئی
نئے ضم اضلاع میں پہلی بار انتخابات کے بعد سابقہ فاٹا سے کئی نئے لوگ صوبائی اسمبلی کے ممبرز بن گئے۔ تقریباً پچاس لاکھ پشتونوں کے لئے یہ ایک تاریخ ساز دن تھا کیونکہ انگریز کے قائم کردہ بفر زون کو بالاخر ستر سال بعد پاکستانی ریاست نے ختم کردیا۔ اگرچہ آزاد دیس کے باسیوں کے لئے سات دہائیاں کالے قانون کے تحت گزارنا بدترین دور بھی تھا جس کی ذمہ داری بھی اس ملک کے پالیسی سازروں پر آں پڑتی ہے۔ پورے ملک میں تو آئین پاکستان موجود اور پشتون ٹرائبل بیلٹ میں اس کو لاگو کرنا ممنوع تھا۔ بحرحال انتخابات ہوتے ہیں اور جنرل الیکشن کے نتیجے میں کوٹہ سسٹم پر خواتین اور غیرمسلم پاکستانی بھی رکن اسمبلی بننے کے حقدار بنتے ہیں۔ اور یہ وہ امر ہے جسے جتنا بھی سراہا جائے کم ہے۔
ان میں سے ایک ولسن وزیر بھی ہیں جو اب خیبر ایجنسی میں اپنے حلقے کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ولسن وزیر نے کیمسٹری میں ماسٹر ڈگری کے ساتھ ایم ایڈ کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ مقامی سکولز اور کالجز میں پڑھانے کے بعد وہ پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ ولسن وزیر کو اقلیت کے حقوق کے لئے کام کرنے کی وجہ سے سول ایوارڈ بھی ملا ہے۔ وہ پہلے غیر مسلم پاکستانی ہیں جن کو فاٹا ڈومیسائل کے ساتھ "ملک” کا رتبہ بھی ملا۔
مگر قسمت کی دیوی ان پر تب مہربان ہوئی جب 25ویں ترمیم کے بعد انگریز کی لکیر کو مٹا کر فاٹا صوبے میں ضم کیا گیا تو ولسن بھی صوبائی اسمبلی کے ممبر بن گئے۔ میں دو واقعات کا ذکر کرکے پوری قوم کے سامنے ایک سادہ سا سوال رکھتا ہوں کہ ہم تو اقلیت کے خلاف ظلم پر آواز تو اٹھاتے ہیں اور اٹھانا بھی چاہیے مگر کیا اس پاک دیس میں ہم اقلیت کی عزت بحثیت پاکستانی یا انسان کے کرتے ہیں؟
گزشتہ سال کے آخری دنوں میں جمرود کے مقامی گرلز کالج میں ایک فنکشن کا انعقاد ہوا تھا جس کے لئے میڈیا کے نمائندوں کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ چونکہ خیبر کے مقامی پی ٹی آئی کے ممبر اسمبلی ولسن وزیر بھی مہمانوں میں تھے۔ بعد میں اس ایونٹ کی صحافی امیرزادہ نے ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر چلائی۔ اگرچہ کلپ میں طالبات کے چہرے ڈھانپے ہوئے تھے لیکن اس ویڈیو نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا اور صحافی کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک منظم مہم چلائی گئی۔
بعد میں چند لوگ ان کو بچانے کیلئے آگے بھی آئے۔ اصل میں یہ ویڈیو سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی۔ مخالفین اس ویڈیو کو ثقافت کے خلاف قرار دیتے تھے۔ بہرحال معاملہ اس وقت حل ہوا جب چند لوگوں نے معزز ممبر صوبائی اسمبلی ولسن وزیر کو مجبور کرکے ان سے معافی منگوائی کہ ہاں ہم سے غلطی سرزد ہوئی۔
اگرچہ دوسرے ایم پی ایز اور مقامی بااثر لوگ بھی اس فنکشن میں موجود تھے مگر کسی نے ان کو کچھ بھی نہیں کہا مگرچونکہ ولسن ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوئے جہاں پر دولت اور طاقت کو تو عزت ملتی ہے مگر اقلیت، دانشور اور عقلمندوں کے لئے اس دھرتی میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
خیبر پختونخوا کی غیر حاضر حکومت بھی اس سارے واقعہ سے ابھی تک بے خبر لگ رہی ہے۔ حقارت کی انتہا اب گزشتہ روز ایک دوسری محفل میں اس وقت سامنے آئی جب وزیر اعلیٰ محمود خان خیبر ضلع کے دورے پر تھے۔ ایک جگہ پر انھوں نے جلسہ عام سے تقریر بھی کرنا تھی۔ جناب وزیراعلیٰ کے بائیں طرف تو سلیکٹڈ اجمل وزیر کی کرسی تھی، صاحبان کو دستار بھی پہنائے گئے تھے اور دوسری طرف غیر مقبول لوگ براجمان تھے۔
پی ٹی آئی کے ایم پی اے، قانون ساز اور پڑھے لکھے ولسن وزیر سٹیج پر رکھی کرسیوں کے ساتھ زندہ باد مردہ باد والوں کے پیچھے کھڑے تھے۔
کیا اس پورے مجمعے میں کوئی بھی باضمیر فرد نہیں تھا کہ ایک قانون ساز کو بیٹھنے کے لئے کرسی دے سکتا۔ ولسن وزیر کا گناہ یہی ہے کہ وہ ایک کرسچن فیملی میں پیدا ہوئے ہیں؟ کہ وہ اس ملک کی اقلیت برادری کے رکن ہیں؟ تو پھر اس دیس میں فرنٹ کی کرسی پر بیٹھنے کا حق کس کو ہے؟
وزیر اعلیٰ محمود خان کیوں بے خبر یا خوشامدیوں کی جھرمٹ میں ہوتے ہیں اور اس پورے پنڈال کے لئے پروٹوکول آفیسر سے کوئی باز پرس کیوں نہ ہوئی؟ ولسن وزیر سمیت کوئی بھی غیر مسلم پاکستانی خواہ وہ اسمبلی کا ممبر ہے یا نہیں وہ کسی بھی دوسرے پاکستانی کی طرح اس دھرتی کا جینوئن بیٹا اور بیٹی ہے۔ ان کو حقارت سے دیکھنے والوں کا احتساب ضرور ہونا چاہئے۔
چي دستار تړي هزار دي
د دستار سړی په شمار دي (خوشحال خان خٹک)
(پگڑی باندھنے والے لوگ تو ہزاروں میں ہیں لیکن اصل میں دستار کے اہل لوگ گنتی کے ہیں)