خیبر پختونخوا، 2018 میں 180، 2019 میں 217 خواتین قتل
سلمان یوسفزے
خیبر پختونخوا میں 2019 کے دوران خواتین کو قتل کرنے کے واقعات 2018 کی نسبت زیادہ ریکارڈ کیے گئے۔
خیبر پختونخوا پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق 2018 کے مقابلے میں گزشتہ سال خواتین کے قتل کے واقعات میں 20 فیصد اضافہ ہوا، 2019 میں 217 خواتین قتل کر دی گئیں جبکہ 2018 میں 180 خواتین کو ابدی نیند سلایا گیا تھا۔
قبائلی اضلاع میں خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم پاک ڈویلپمنٹ مشن کی سربراہ زرتاشیہ جمال کہ ہمارے میں معاشرے میں خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی اپنے اور دوسروں کے حقوق کے بارے میں آگاہی دی جائے تو امید ہے کہ اس طرح کے واقعات میں کمی آجائے گی۔
زرتاشیہ جمال کے مطابق 2018 کے مقابلے میں 2019 میں خواتین کے قتل میں اضافہ ایک افسوسناک امر ہے۔
ٹی این این کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ کم عمری کی شادی اور گھریلو تشدد بھی خواتین کے قتل کا ذریعہ ہے کیونکہ کم عمری میں اسے بڑی گھریلو ذمہ داریاں سونپ دی جاتی ہیں جنہیں پورا نہ کرنے پر پھر اسے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بقول ان کے کم عمری کی شادی پشتون معاشرے میں ایک رواج بن گئی ہے اور اگر کوئی لڑکی اس سے انکار کرے تو پھر اسے غیرت یا کسی اور نام پر قتل کر دیا جاتا ہے جبکہ اس طرح کے بیشتر واقعات رپورٹ بھی نہیں کیے جاتے۔
زرتاشیہ جمال کے مطابق اکثر خواتین بنیادی حقوق کیلئے آواز اٹھانے اور وہ آواز دوسروں تک پہنچانے کی پاداش میں بھی ابدی نیند سلا دی جاتی ہیں حالانکہ تعلیم، روزگار اور پسند کی شادی مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا بھی حق ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے اپنی خواتین کو محکوم اور شعور سے محروم کر رکھا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاک ڈویلپمنٹ مشن کے زیرسایہ وقتاً فوقتاً خواتین کے حقوق کیلئے اجلاس منعقد کیے جاتے ہیں جس میں خواتین کے ساتھ ساتھ علماء بھی شریک ہوتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ کیلئے بھی ہمارے کئی ایک منصوبے ہیں جن میں خواتین کے ساتھ سیاست اور زندگی کے دیگر مرحلوں میں فیصلہ کرنے کے اختیار کے حوالے سے سیشن رکھے جائیں گے تاکہ وہ بھی مردوں کے شانہ بشانہ معاشرے کی ترقی کیلئے کام کر سکیں۔
زرتاشیہ توقع رکھتی ہیں کہ اگر کہیں خواتین اور مردوں کو اپنے اپنے حقوق بارے آگاہی کے ساتھ ساتھ اپنی پسند اور فیصلہ سازی کا اختیار دیا جائے تو ممکن ہے کہ خواتین کے قتل جیسے واقعات پر قابو پالیا جائے اور یہ معاشرہ بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔