،،انتخابات میں تاخیرکے بعد قبائلی عوام اور امیدواروں میں مایوسی پھیل گئی ہے،،

خالدہ نیاز
،،رمضان کے بعد قبائلی اضلاع میں ہونے والے انتخابات کے لئے امیدواروں کے پاس صرف 20 دن کا وقت تھا اوراتنے کم دنوں میں وہ صحیح طریقے سے انتخابی مہم نہیں چلا سکتے تھے لیکن اب انتخابات میں تاخیر سے امیدواروں کو ووٹرز تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے وقت مل گیا ہے،،
ان خیالات کا اظہارجماعت اسلامی کے لئے ضلع خیبر کے امیر شاہ فیصل نے ٹی این این کے پروگرام بدلون کے پینل ڈسکشن میں کیا۔ شاہ فیصل قبائلی اضلاع میں ہونے والے انتخابات میں بھی جماعت اسلامی کی ٹکٹ پر حصہ لے رہے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع میں علاقے ویسے بھی دور دور واقع ہے اور کم وقت میں امیدواروں کے لئے ممکن نہیں ہے سارے علاقوں میں جاکر اپنا انتخابی مہم چلا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں انتخابات میں تاخیر کا امیدواروں کو فائدہ ہوگا۔
پینل ڈسکشن میں اورکزئی سے انتخابات میں حصہ لینے والے آزاد امیدوار عبد الشاہد اورکزئی اور صحافی زاہدوزیر بھی شامل تھے۔
انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے زاہد وزیر کا کہنا تھا کہ اس کے برے نتائج سامنے آئیں گے کیونکہ قبائلی اضلاع میں انتخابات کے اعلان کے بعد مقامی لوگ خوش تھے کہ انکے علاقوں میں صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات ہونے جارہے ہیں اور یہ قبائلی اضلاع کا خیبرپختونخوا میں انضمام کی طرف ایک قدم بھی تھا لیکن انتخابات میں تاخیر کے اعلان کے بعد لوگوں اور امیدواروں میں مایوسی پھیل گئی ہے۔
انکا کہنا تھا،، اب قبائلی اضلاع میں لوگ انتخابات کے لئے پرجوش نہیں ہے اور انتخابی مہم بھی ماند پڑگئے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ لوگوں اور امیدواروں میں یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ حکومت اور الیکشن کمیشن قبائلی اضلاع میں نتخابات کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے،،
زاہد وزیر نے یہ بھی کہا کہ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ شاید حکومت اب 26 ویں آئینی ترمیم کا بہانہ بناکر انتخابات میں مزید تاخیر کریں۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے چند روز قبل خیبرپختونخوا حکومت کی درخواست پر قبائلی اضلاع کے 16 حلقوں میں انتخابات 18 دن کے لئے ملتوی کردئیے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ترجمان کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی 16 نشستوں پر الیکشن ملتوی کردیے، قبائلی اضلاع میں ہونے والے یہ انتخابات 18 دنوں کے لیے ملتوی کیے گئے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق قبائلی اضلاع کے 16 حلقوں میں انتخابات پہلے 2 جولائی کو شیڈول تھے جو اب 20 جولائی کو ہوں گے۔
اورکزئی سے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار عبد الشاہد اورکزئی کا انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے کہنا تھا کہ انتخابات ہمارا بنیادی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ،، ہم نہیں چاہتے کہ قبائلی اضلاع میں انتخابات میں مزید تاخیر نہ ہوں کیونکہ 2018 سے 2019 میں حالات کافی بہتر ہے، انتخابات میں مزید تاخیرکی صورت میں ہم بھرپور احتجاج کریں گے،،
ایک سوال کے جواب میں شاہ فیصل کا کہنا تھا کہ انتخابات میں مزید تاخیر اس وجہ سے ہوسکتا ہے کہ کہ اگر حکومت 26 ویں آئینی ترمیم بل کو اسمبلی میں لائیں اور اس بنا پر انتخابات معطل کرنے کرنے کے لئے 6 ماہ کا وقت مانگیں۔
انہوں نے کہا کہ،، اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو یہ قبائلی اضلاع کے لوگوں کے لئے بہت فائدہ مند ہے کیونکہ اس سے قومی اور صوبائی اسمبلی میں قبائلی اضلاع کی سیٹیں زیادہ ہوجائیں گی لیکن اگر حکومت اس کے علاوہ سکیورٹی یا کوئی اور بہانہ بنا کرالیکشن میں مزید تاخیر کرتی ہے تو اس کے خلاف ہم احتجاج کریں گے،،
شاہ فیصل نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو چاہیئے تھا کہ یہ بل سینیٹ سے بھی جلد از جلد پاس کروالیتا لیکن لگتا ہے کہ حکومت کی نیت میں کچھ فرق ہے۔
یاد رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیمی بل 13 مئی کو قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور کی جاچکی ہے۔
ترمیمی بل کی منظوری کے بعد فاٹا کے لیے قومی اسمبلی کی نشستیں 6 سے بڑھ کر 12 جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستیں 16 سے بڑھ کر 24 ہوجائیں گی۔
انضمام کے عمل کو حقیقی جامہ پہنانے کے لیے انتخابات کس حد تک ضروری ہے؟ اس سوال کےجواب میں عبدالشاہد اورکزئی کا کہنا تھا کہ 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد قبائلی عوام سب کچھ صوبے سے مانگیں گے اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب قبائلی اضلاع میں صوبائی انتخابات کا انعقاد ہوں اور وہاں کے نمائندے خیبرپختونخوا اسمبلی میں موجود ہوں۔
انہوں نے کہا،، فاٹا کے لوگ سالوں سے اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں، یہ بات ٹھیک ہے کہ قبائلیوں کے نام پر فنڈز آتے رہے ہیں لیکن فنڈز اس طریقے سے خرچ نہیں ہوئے جسطرح ہونے چاہیئے تھے، اب ہمارے پاس حقوق حاصل کرنے کا واحد راستہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہیں اگر اسمبلی میں نمائندے نہیں ہونگے تو ہم اپنے حقوق کہاں سے حاصل کریں گے،،
شاہ فیصل نے بھی عبد الشاہد اورکزئی کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے ساتھ ساتھ بلدیاتی انتخابات کا بھی فورا انعقاد کرنا چاہیئے تاکہ قبائلی عوام کو اپنے حقوق مل سکیں۔
ایک سوال کے جواب میں زاہد وزیر کا کہنا تھا کہ فنڈز کو صحیح جگہوں پر خرچ کرنے کے لئے ضروری ہے قبائلی اضلاع میں صوبائی اور بلدیاتی انتخابات وقت پرہوں اور ایسے لوگ منتخب ہوکر آئیں جو ان فنڈز کو ٹھیک جگہوں پرخرچ کرسکیں۔
انہوں نے کہا،، اگرقبائلی اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہوجاتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کی جانب سے فاٹا کے لئے جو بھی فنڈز مختص ہوں گے وہ ٹھیک جہگوں پرخرچ ہونگے،،
انہوں نے یہ بھی کہا خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد اب قبائلی اضلاع کی ترقی اور بحالی کے لئے کمیٹیاں اور پالیسیاں بن رہی ہے لیکن جب تک قبائلی اضلاع کے نمائندے اس میں شامل نہیں ہونگے تو یہ سب ناکام ہے لہذا صوبائی اور بلدیاتی انتخابات وقت کی ضرورت ہے۔
خواتین کا انتخابات میں حصہ لینے اور ووٹ کا حق استعمال کرنے کے حوالے سے شاہ فیصل کا کہنا تھا کہ پارٹیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ 5 فیصد خواتین کو امیدوار کے طور پر انتخابات میں کھڑا کریں گے تو جماعت اسلامی نے بھی ایک خاتون کو ٹکٹ دی ہے، اس کے علاوہ اے این پی نے بھی خاتون کو ٹکٹ دی ہے۔
اس حوالے سے زاہد وزیر کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع میں 60 فیصد خواتین کے شناختی کارڈ بن چکے ہیں اور انکو اپنے گھرکی مردوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اپنے ووٹ کا اندراج کریں۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں اب لوگوں میں شعور آچکا ہے اور وہ اپنی خواتین کو خود ووٹ ڈالنے کے لئے لے کرجاتے ہیں، البتہ قبائلی اضلاع میں خواتین کے لئے بہت مشکل ہے کہ وہ مہم چلائیں لیکن امید ہے کہ مستقبل میں خواتین بھی زیادہ تعداد میں انتخابات میں کھڑی ہونگی اور باقاعدہ مہم بھی چلائیں گی۔